Breaking

Sunday, October 28, 2018

2:06 AM

لو بھلا بتاؤ۔ ۔ ۔ گھر میں برکت ہو، تو کیسے ہو؟ ابّا دکان پر کھڑے۔ ۔ ۔ ''کُوپیکس'' کیڑے مار پاؤڈر کو گھورتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔

لو بھلا بتاؤ۔ ۔ ۔ گھر میں برکت ہو، تو کیسے ہو؟ ابّا دکان پر کھڑے۔ ۔ ۔ ''کُوپیکس'' کیڑے مار پاؤڈر کو گھورتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔ ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔! بہترین دوا ہے یہ ۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیاں مر جاتی ہیں اس سے۔ دکاندار نے ابّا سے کہتے ہوئے ماڈرن خاتون کی جانب پریشانی سے دیکھا، جو ابّا کے اس جملے پر چونک گئی تھیں اور ان کو وضاحت طلب نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ ٹھیک ہے بھائی ۔ ۔ ۔ تم ایسا کہہ سکتے ہو، تمہاری دکانداری کا معاملہ ہے۔ ۔ ۔ مگر گھر میں آئی چیونٹیوں کو بھگانے کے لئے یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ ابّا اپنی بات پر قائم تھے۔ یہ 1986ء کی بات ہے۔ ۔ ۔ میں کچھ دیر پہلے ہی مہینے بھر کی گراسری کے لئے ابّا کے ساتھ دکان پر آیا تھا، ہم ہمیشہ اسی دکان سے سودا لیا کرتے تھے۔ آج بھی جب ہم دکان پر پہنچے اور سودا لینے لگے تو اُسی دم وہ ماڈرن خاتون اپنے کاندھے پر دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی کاؤنٹر پر آ پہنچیں۔ ستاربھائی۔ ۔ ۔ وہ چیونٹیاں مارنے والا پاؤڈر ہے؟ انہوں نے آتے ہی دکاندار سے سوال کیا تھا، جو اسوقت ہمارے لئے کالی مرچ تول رہا تھا۔ جی باجی۔ ۔ ۔ ابھی لایا۔ وہ ہماری کالی مرچوں کو چھوڑ کر اندرونی حصے میں چلا گیا اور کچھ دیر بعد کوپیکس پاؤڈر کے گول ڈبے کو جھاڑتا ہوا لے آیا۔ یہ کیا ہے ؟ ابّا کے ماتھے پر بل آگئے۔ ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔ یہ بڑا بہترین پاؤڈر ہے، چیونٹیوں کو مارنے کے لئے۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ انسانی صحت کے لئے مضر بھی نہیں۔ ۔ ۔ میں تو اپنی پوری دکان میں یہی استعمال کرتا ہوں۔ ابّا کے استفسار پر ستار بھائی کی آنکھوں میں پاؤڈر والوں کا کمیشن لہرانے لگا۔ ہاں ۔ ۔ ۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر چیونٹیوں کو کون مارتا ہے بھلا ؟ آخر وہ کسی کا کیا بگاڑتی ہیں؟ ابّا نے حیرانی سے خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ تو کیا کروں انکل؟ میں تو پریشان ہو گئی ہوں ان چیونٹیوں سے۔ ۔ ۔ بچوں والا گھر ہے میرا۔ ۔ ۔ شوہر سے کہا تو انہوں نے بھی جھاڑ پلا دی۔ ۔ ۔ کہنے لگے، ''امی کی زندگی میں تو کبھی ہمیں چیونٹیوں نے پریشان نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ گھر کو بالکل صاف رکھا کرتی تھیں'' ۔ ۔ ۔ اب آپ ہی بتائیں۔ ۔ ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا میں گھر کی صفائی نہیں کرتی ہونگی؟ کیا میں آپ کو ایسی پھوہڑ دکھائی دیتی ہوں؟ خاتون نے نہ صرف اپنا دکھڑا رونا شروع کردیا، بلکہ ابّا سے سوالات بھی کرنا شروع کردئے۔ اور ابّا جو ان سوالات کے لئے بالکل تیار نہ تھے، ایکدم پریشان ہو گئے۔ نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے نجات کے لئے تم ایک مٹھی آٹا ڈال دیا کرو۔ ۔ ۔ یہ بیچاری ننھی مخلوق تو صرف رزق کے لئے باہر آتی ہے۔ ۔ ۔ اور بس۔ ۔ ۔! ابّا کے لہجے میں زمانے بھر کی شفقت دیکھ کر، خاتون نے غیر محسوس انداذ میں دوپٹہ سر پر لے لیا۔ جی جی انکل۔ ۔ ۔ مگر کیا اس سے چیونٹیوں سے چھٹکارہ مل جائے گا؟ وہ اب بھی غیر یقینی انداذ میں ابّا سے پوچھ رہی تھیں۔ کیوں نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ پرانے زمانے سے یہی رواج چلا آرہا ہے۔ ۔ ۔ اِدھر گھر میں چیونٹیاں نظر آئیں، اور اُدھر بڑی بوڑھیوں نے مٹھی بھر آٹا کونوں میں ڈال دیا۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے بھی نجات۔ ۔ ۔ اور صدقے کی نیکی مفت میں۔ ابّا ہنسنے لگے تو خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ چلیں میں بھی پھر۔ ۔ ۔ آٹا۔ ۔ ۔ ہی ٹرائے کرتی ہوں۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے کوپیکس پاؤڈر وہیں کاؤنٹر پر رکھ کر واپسی کے لئے مڑ گئیں۔ اور ستاربھائی نے ابّا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کالی مرچوں کو تولنا شروع کردیا۔ ابّا۔ ۔ ۔ تم نے ستار بھائی کی دکانداری خراب کردی ۔ واپسی پر میں نے ابّا سے ہنستے ہوئے کہا۔ نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ یہ بات نہیں۔ ۔ ۔ ہمارے گھروں سے برکتیں اسی لئے اٹھ گئی ہیں ۔ ۔ ۔ لوگ اللّہ کی مخلوق کا خیال رکھنا بھول چکے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے کسی گھر کے سامنے کُتا بھی آکر بیٹھ جاتا تھا، تو گھر کی خواتین اسکے سامنے بھی کچھ نہ کچھ بچا کھچا سالن روٹی رکھ دیا کرتی تھیں۔ ۔ ۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اب ۔ ۔ ۔ روٹیاں بھی گن کر پکائی جاتی ہیں۔ ۔ ۔ برکتیں کہاں سے آئیں گی پھر؟ ۔ ۔ ۔ اس قوم پر بومب نہ گریں۔ ۔ ۔ زلزلے نہ آئیں۔ ۔ ۔ سیلاب نہ آئیں۔ ۔ ۔ تو اور کیا ہو؟ ابّا تاسف کے اظہار کے ساتھ ساتھ مجھے آسان زندگی کے گُر سمجھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ عرصہ گذر گیا۔ ۔ ۔ میں بھی اس واقعے کو بھول گیا۔ پھر ایک دن بڑے بھائی جان کے ہاں جانا ہوا۔ ابھی ڈور بیل بجانے ہی لگا تھا کہ، چڑیوں کے جُھنڈ کے اڑنے کی زوردار آواز کانوں میں پڑی، چونک کر اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ مین گیٹ کے دونوں جانب مٹی کے کُونڈے رکھے تھے، اور ان کُونڈوں سے چند لمحے قبل یقیناً وہ چڑیاں دانہ چگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ اور اب میری آمد سے ڈر کر اانہوں نے اڑان بھری تھی۔ مگر ابھی بھی۔ ۔ ۔ وہ اڑ کر دور نہیں گئیں تھیں۔ ۔ ۔ بلکہ اوپری مُنڈیر پر اِدھر اُدھر پھدک کر میرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ بھتیجی نے دروازہ کھولا تو میں اندر داخل ہوگیا۔ یہ کیا ؟۔ ۔ ۔ اتنی ساری چڑیاں۔ ۔ ۔؟ میں نے سلام کے بعد خوشگوار حیرت سے بھابھی سے پوچھا۔ جو کچن کی کھڑکی سے کھانا پکاتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ تمہارے بھائی جان نے رکھے ہیں یہ کُونڈے لا کر۔ ۔ ۔ چڑیوں کے دانے کے لئے۔ وہ معنی خیز انداز میں بڑی بھتیجی کو دیکھ کر مسکرائیں تو مجھے اچنبھا سا محسوس ہوا۔ شام کو بھائی جان آئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ بھائی جان۔ ۔ ۔ یہ چڑیوں کے لئے دانہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے کیا؟ نہیں بس ۔ ۔ ۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔صدقہ دیتے رہنا چاہئے۔ بھائی جان نے آہستہ سے سمجھایا۔ ۔ ۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ۔ ۔ خصوصًا جس گھر میں بیٹیاں ہوں۔ ۔ ۔ پھر بتانے لگے کہ کسی بزرگ کے پاس ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ غریب آدمی ہے اور پریشان ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں کی شادی کس طرح کر پائے گا، کیونکہ غربت کی وجہ سے کوئی اسکی بیٹیوں سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔ بزرگ نے مشورہ دیا کہ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ ۔ ۔ تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ غریب آدمی مارے احترام کے بزرگ کو تو کچھ نہ بول پایا، البتہ آستانے سے باہر آکر زاروقطار رونے لگا۔ پاس سے گذرتے کسی دانا نے پوچھا روتے کیوں ہو؟ غریب نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ غربت نے پہلے ہی مار مار کر ادھ موا کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اور سرکار نے فرمایا ہے کہ ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ۔ ۔ ۔ تب بیٹیوں کی شادی ممکن ہوگی۔ دانا آدمی مسکرا کر بولا بھلے آدمی۔ ۔ ۔ بھوکا کیا صرف انسان ہوتا ہے؟ اللّہ کی مخلوق ۔ ۔ ۔ چھوٹی ہو یا بڑی ۔ ۔ ۔ بھوک تو سب کو ستاتی ہے۔ ۔ ۔ اگر تم ایک مٹھی آٹا بھی چیونٹیوں کو ڈال دو گے تو سمجھو تمہارا صدقہ ہوگیا۔ دانا آدمی تو یہ کہہ کر اپنی راہ چل دیا۔ ۔ ۔ اور غریب اپنی ناقص عقل پر ہنستے ہوئے اپنے گھر کو چلا۔ کچھ عرصے بعد ہی صدقے کی برکات سے نہ صرف وہ اپنی بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوا بلکہ گھر میں بھی خوشحالی آگئی۔ بھائی جان جس وقت یہ واقعہ ہم کو سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ مجھے ابا کی ''مٹھی بھر آٹے'' والی بات یاد آرہی تھی۔ میں نے آنے والے دنوں میں دیکھا کہ بھائی جان نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ان کی صحیح عمر میں ۔ ۔ ۔ بالکل درست موقعے پر کر دیں۔ شاید اسی لئے۔ ۔ ۔ جب میں نے اپنا گھر لیا تو سب سے پہلے اپنے دروازے کے پاس چڑیوں کے لئے دانہ رکھ دیا۔ کئی بار گھر بدلا۔ ۔ ۔ ہر بار یہ چڑیاں، کبوتر اور کوّے میرے رزق کی آسانیوں کا سبب بنتے رہے۔ بیماریاں بھی آئیں۔ ۔ ۔ پریشانیوں نے بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ مگر ہمیشہ یہ پرندے مجھے آسرا دیتے رہے۔ ۔ ۔ اِنّا مَعَ العُسرِ یُّسرًا ۔ ۔ ۔ کے معنی سمجھاتے رہے۔ ۔ ۔ اللّہ رب العزت کی بڑائی کا یقین دلاتے رہے۔ الحمداللہ۔ ۔ ۔ ثُمَّ الحمداللہ۔ ۔ ۔ میں نے آج تک اپنے بچوں کا بہتا خون نہیں دیکھا۔ ۔ ۔ انہیں کسی تکلیف سے تڑپتے نہیں دیکھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ۔ ۔ ۔ ہماری مرغی کُڑک ہوجانے کے باوجود انڈوں پر کیوں نہیں بیٹھ رہی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ وہ دور تھا۔ ۔ ۔ جب میرا گھر ''کبوتروں والا گھر'' کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔ یقین مانئیے۔ ۔ ۔ کہ یہ تمام باتیں اس لئے نہیں لکھی ہیں کہ نعوذ بااللہ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی نیکیوں کا پرچار کرنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ میں اس راز کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں جو سوال کی صورت میں مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ آخر کیسے گذا را کر لیتے ہو؟۔ ۔ ۔ ہم سے تو نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی زندگی کو اسی ننھی مخلوق کی خدمت کرکے آسان بنایا ہے۔ تمام بڑائیاں اس رب کے لئے جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں یہ کر سکوں۔ اللّہ ہم سب کو صدقات کی توفیق دے ۔ آمین.

Saturday, October 27, 2018

12:02 PM

نظم دا نام کَٹے دا پَلوتا نظم مہر ریاض سیال

"""" کَٹے دا پَلوتا نظم """""" شاعر مہر ریاض بھوڑانہ سیال ماچھیوال ضلع جھنگ جداں آ کے دودھی نے ہارن وجایا چا مجھ آپنڑے کِلے تے پیڑہ ہلایا ناں پھل دی ضرورت ناں بھاڑہ ہے منگدی لِیہاری ہے سائیکل دے ہارن تے سنگھدی کدی تڈ جے بھر بَہے کے ہو جاوے رَنج اے زمیندار دے ہتھ اچ ہوندی سُرنج اے جداں ٹیکے اوراں چا دتی وکھالی رہی لیندی تھونڑی دے باہروں بھنوالی تے بَہے پاسے کٹا پیا بُھکا بھانڑہ جیویں کیں وڈیرے دے ڈیرے پراہنڑہ بیٹھا جُھونڑ ماری نصیباں دا سڑیا ہا شک پوندا شوہدھا الیکشن تے ہَریا تھوڑہ تھوڑہ مُوتے تھوڑہ تھوڑہ رینگے جیویں کوئی افسر بیوی کولوں لنگھے ہا انج ویدھا دودھی دے منہ دو علیل اے مُواکِل دا بوجھا جو ویدھے وکیل اے """"""""" کٹہ دُودھی نوں کے آدھائے """""""""" میں دس دودھیاء تیرا کی ہے ونجایا تہے کیوں میری ماں دا میتھوں دودھ چھوڑایا بڑے حوصلے نال سنڑ گاَل اودھی تے فورا ہی دِتا جواب اگوں دُودھی میتھے تیری رِنجکی ہے بلکل فضول اے میرے ذمے لا میں کریساں قبول اے میرا کاروبار اے نموں مفت لیندا میں ہاں پہلوں چاندی دا کَھلہ مریندا اووہ تیرا مجرم اودایں کر اپیل اے توں مالک نوں دے آپنڑے حق دی دلیل اے لگی گال دودھی دی کٹے نوں پیاری زمیندار تائی عَرض اُس گذاری بہے پاسو او تینوں تھوڑی ہے کھَٹی گرانٹاں تے کُوٹے غریباں توں چَٹی ہووی خیر پَپو تے گڈو دی شالا اے دودھ وِحچنڑاں تاں نِرا ہے مُوکالا عقل تیری تے مینوں آندی ہے حَیرت زمیں تیری ماں ہے تے دودھ تیری غیرت انہاں نوں ای ویچیں تے سرکار عالی تے وت تیرا بھانڈا ہے غیرت توں خالی ذمیندار نوں اگوں کاوڑ جو آی اسے ویلے ظالم چا سدیا قصای اگوں لایا مجبور نوں انج قصای جو بیوی اگوں ڈاھڈے گھر دا جوای منہ وت آسماں دو چا کیتا غریب اے خدایا توں دکھیاں دے دکھ دا طبیب ایں توں لا ریب منصف تے لاریب عادل نہیں تیرا کوی وی مَدمقابل ایہو تیرا احسان گھٹ ہے خدایا نہوں اس دور دا مینوں انساں بنایا تیرے ہتھ اے انصاف دی ڈور مالک کیہڑا تیرے باجھوں میرا ہور مالک """ اللہ تعالیٰ جواب دیندن اگوں کٹے نوں """" جیتھوں تائی ہے میرے عدل دا تعلق کرم دا تعلق فضل دا تعلق میں نِمرود مچھر دے کُولوں مَرانواں تے بھَٹی چوں بیلی دے بچے بچانواں عدل تیرا ہوسی توں گھبرا نہ ہرگز نہ تھی مُوجا ہرگز تے دل ڈھا نہ ہرگز جہے تینوں روایاء ،رولایاء ، کوہَیاء تیری ماں دا دودھ جہے ہے تیتھوں چھوڑایاء اودھے بال وی کھیر ماں دا نہ وَلسن جے میتھے یقین ہیی تاں فِڈر تے پَلسن
12:00 PM

نظم اے مہر ریاض سیال صاحب دی نظم دا نام ایں رشوت

نظم اے مہر ریاض سیال صاحب دی نظم دا نام ایں رشوت {{نظم}} ٹویٹا کرولا پجارو،،،،،،،،،،،نہ لاری میرے کول خیالاں دی اُڈن اڈاری میں سوچاں دی باری چوں جھاتی جے پائی تاں مکروہ شکل ہک نظر مینوں،،،،،،،،،،آئی میں پُچھیا تیرا کِتھ ٹِھکانہ گراں اے توں کون ایں کیا ایں تے کی تیرا ناں اے اگوں بولی آکڑ کے ھو کے ناراض ہیں کمزور بہوں حافظے دا ریاض ہُنڑیں نال مینوں توں بیٹھا وِسار اے تیرا میرا تاں کافی چِر دا پیار،،،،،اے مینوں بَگا کالا کرن دی ہے قدرت میرا ناں ہے رشوت میرا ناں ہے رشوت ہے میری انوکھی نرالی کہانڑی کدیں رہی شہزادی کدی ہوئی نمانڑی جہانگیر دی میں زنجیر ای هلائی تے رج شاہجہاں اگوں پائی دوہائی میں اکبر ہمایوں نوں فریاد کیتی عیاں ساری بابر تے روداد،،،،،کیتی سُنڑایا ظفر نوں دُکھاں دا فسانہ مینوں خالی ہتھ کیتا سب نے روانہ گیا دور مغلاں دا انگریز،،،،،،،،،،،،،،،،آۓ میں جاتا میرے دیہنہ خدا چا بھنواۓ انہادے وی ویکھے تاں سگویں رواج ہن اوہ لا دین ہو کے وی منصف مزاج،،،،،ہن پرانڑے زمانے میں ہاموں جری اے میری ٹیک بَھنی چا تیرے نبی اے ابوبکر عثمان دی زندگی،،،،،،،وچ عمر دی خلافت تے عہد علی وچ میں اُکا یتمی دی زندگی،،،،،،،،،گزاری رہیُم دھکے در در تے کھاندی بیچاری زمانے نے پرتالیاں لیاں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،لکھاں میرے منھ تے لگیاں میں جئیں پاسے تکاں حکومت جداں آ گئی غزنوی،،،،،دی ہوئی ڈھیر بربادی قسمت میری دی اودی سوچ اُڈاۓ چا میرے،،،،،،،،،،،ھوش اے میں ہاں بت شِکن میں نئیں بت فروش اے مغل دور وچ ہوئی اتنی ذلیل اے نہ بربادیاں دی ہے دپدی دلیل اے میں انگلینڈ گییُم تے امریکہ گییُم میں روس اچ گییُم تے افریقہ گیُم میں تُرکی تے بھارت تے جاپان گییُم عرب اچ عراق اچ تے لبنان،،،،،،گییُم کِتھائیں نہ لدھے سر لکاونڑ دے ساۓ کتھائیں قید بھوگی کتھائیں ہتھ کٹاے ایسے حال وچ آ گیا سن سنتالی ہا میرے مقدر دے گلشن دا مالی میں ہاموں مقدر تے روندی کھڑی اے میرے سر تے ہتھ رکھیا ہک اجنبی اے دتے اُس نے مینوں سہارے دلاسے توں ہو ونج ذرا کئی دیہنہ آسے پاسے ناں رو بس جناح دے ہے جاون دی ڈِھل اے چمن ویسی تیری امیداں دا کِھل،،،،،،،،،، اے بھلا ھووی کونڑ اے تعارف کرا اے میں پٹواری ہاں مینوں سمجھیں بھرا اے تے بس وت تاں آہن جو پنجے گِھیو وِچ رہیُم اگاں اگاں میں سنگتاں دی ٹوہ اچ
11:43 AM

امیر تے غریب ,کلام ,,مخدوم ربنواز ھاشمی

::::("امیر تے غریب"):::: دو سہیلیاں کسے جاہ تے راھندیاں ھن تے بڑا اونہاں دا پیار ھا قانون قدرت ھک امیر دے گھر چلی گئ تے دوجھی غریب دے گھر ھک دن غریب سہیلی اپنڑیں اس امیر سہیلی نوں ملنڑں جاندی ھے جدوں گئ ھے ھال احوال پچھیأ ھے تاں امیر سہیلی اپنی گزر دسدی ھے تے غریب اپنی گزر دسدی ھے ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,,,,,,,,,,,,,,, ,, ,,,,,,,,,, , امیر سہیلی آکھدی ھے,,,,,,,,,,,,,, کسے شاۓ دی بلکل تھوڑ وی کائی نہیں انج راج نصیب کراۓ موں اے ڈٹھے نی گل اچ ھارمیرے کجھ رکھ آئی ھاں کجھ پاۓ موں ھک ھور ڈیزائن بازار اچ آیا اے دو گجرے کل بنڑواۓ موں اوہ زیور ,,ھاشمی,, یاد وی کوئی نہیں جہڑے زندگی نال ھڈھاۓ موں ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, تاں اوہ وت غریب سہیلی نوں پچھدی ھے بھائ سنڑا.تیرا کی حال چال ھے تاں غریب سہیلی رو کے آکھدی ھے ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, کنڈیاں دے قلف پرانڑیں ھوگۓ چھڑی پتل دی تار ناں لدھی کئی موسم پرتے زندگی دے رت مست بہار ناں لدھی ھنجوں لڑھیأں انج رخساراں تے سوئی رکھنڑں دی تھاہر ناں لدھی جداں,, ھاشمی,,مرنڑں تے دل بنڑیاں پورے شھر اچوں زہر ناں لدھی ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, اوتھوں اوٹھیأں ھن تے اپنے اپنڑیں گھر چلیأں گیأں ھن تاں کسے غریب سہیلی نوں پچھیأ ھے سنڑا امیر سہیلی کولوں جوں گئی ھاؤں اس کوئی تعاون وی کیتا ھئ کجھ حوصلہ افزائی وی کیتی ھئی تاں غریب تے خودار سہیلی نے کی جواب دتااے ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, اج ,,ھاشمی,, کہیں دی چوکھٹ تے مینوں کائ مجبوری لاۓ گئ میں دکھ پلٹے اوھدی جھولی وچ اوہ داج کھلار کے بہہ گئی کئ کنگنڑں ھار ہمیل تے جھمکے اوہ چھاپ مچیندی راہ گئی اوھنوں پاۓ گئی اپنڑیں زیوراں دی مینوں اپنڑیں آپ دی پاۓ گئی ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, امیر سہیلی وی اے گل سنڑں لئ کہ میری شکائیت کررھی ھے میرا گلہ کررھی ھےاوہ جزبات اچ آئی ھے اس نوں گل نال لایاھے تے پیار کیتا ھے اپنڑیں کن اچوں جھمکا لاہ کے اس دےگل وچ پاونڑں دا ارادہ کیتا ھے تاں عریب سہیلی جمکا واپس کیتا اے تے کہڑی گل کیتی ھے غریب سہیلی کی آکھیا ھے ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, لکھاں موسم گزر بہار دےگئے جہڑے کھلنڑیں ھن پھل کھل گئے چھڑی زلف دی نوک سنوار ناں سگئیوم پھکے پاۓ رخسار دے تل گئے لڑھے ,,ھاشمی,, خاب جوانیاں دے ترٹ میں مجبوردے دل گئے ھنڑں میں کی کرناں ایں جھمکیأں نوں جداں بارے ای سیپ کے مل گئے ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, کلام ,,مخدوم ربنواز ھاشمی صاحب ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,,,,,,,,,,,,
11:39 AM

اج میں تیرے تعلق دے قابل تے نہ. لئے کے ویلے ویہانے دا مان آ گیاں. مرحوم غلام محمد درد

مرحوم غلام محمد درد صاحب دی نظم اے. اج میں تیرے تعلق دے قابل تے نہ. لئے کے ویلے ویہانے دا مان آ گیاں. ہوش جا تے وی ناہ تیرے دربار تائیں تیرے پیراں دے تک کے نشان آ گیاں. تینوں دیون مبارک نئوے راج دی. نالے ویکھن تیرے وسدے بھان آ گیاں. بھاویں بیڑی انا دی ڈکیندی رہی. پر فریضہ نبھاون دے کان آ گیاں. کہیں بہانے جے دیدار ہوندا ہووے. جھیل کے اپنے قیدی پران آ گیاں. توں میری سوگواری تے نہیں پونچیا. توڑ مازی دی دیون مکان آ گیاں. اللہ رکھی سلامت امیراں دا سنگ. بخت دے اے الارے مبارک ہوون. تینوں تیرے چبارے مبارک ہوون. مینوں آوکھے گزارے مبارک ہوون.
11:36 AM

مہر ریاض سیال دا لکھیا ہویا کلام مہر غلام محمد درد مرحوم دی یاد اچ ساری سنگت دی نظر

اُستاداں دی پہچان گئی شاگرداں دا عرفان گیا سجنڑاں نوں پھوٹے چُوونڈھ گئے ٹُر مرضاں دا لُقمان گیا ہر پاسے سُنج دے بھنڈڑے ہِن لُگ کر کے وسدے بھانڑ گیا سِروں بالاں دے اسمان گیا لُڑھ بیوہ دا ارمان گیا اسٹیج تے جنج اے شاعراں دی پر دُلہن کنّوں بُٹّی اے ہِک درد کلاس اچ توں کوئی نہُوں لگدائے اسکول نوں چُھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلاں بالغ پن دیاں بچپن وچ کوئی انج دیاں فرد نہ مُڑ کرسی کرے ویلے دے نمروداں نوں جو انج بے پرد نہ مُڑ جمسی ایڈا خودکش قلم تے کاغز دا کوئی دہشت گرد نہ مُڑ جمسی میرا دعویٰ ہے سرگودھے وچ کوئی دُوجھا درد نہ مُڑ جمسی سب ڈوڈے کھکھڑیاں دسدے ہِن عزرائیل نے چُنڑ لئی پُھٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چُھٹّی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویں دندُّنڑ پٙٹ کے کٙنڈیاں دا مستی وچ نِکھر گلاب امدا جویں تروڑ کے جپھّی بچپن دی ہے نعرہ مار شباب امدا جویں دے کے خوشیاں نیند دے وچ ہے کرن بکھیڑا خواب امدا جویں کر کے جھات حسینہ دے رُخ تے یک لخت نقاب امدا اُنجے درد تیری پوہ پھُٹّی اے اُنجے ہو گئیوں جُٹّی جُٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چُھٹّی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساہیوال لگے موہِنجوداڑو سرگودھا دِسے ہڑپہ اے صدیاں وچ جمدِن جو لیندن تاریخ دے ہاں تے ٹھپّہ اے کہیں دے ارمان پُنڑی گئے ہِن کہیں کول کٙھسی گیا پپّہ اے جھنگ رووے اپنڑیں قسمت نوں کُھس جیتھوں گیا بِلپّہ اے مستی وچ بولدے تِتّر دی صیاد چہ کنّہی گُھٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چُھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیئں تالے تروڑے ہوٹھاں دے اج اُوں ہوٹھاں تے تالا ہِے جویں اُڈیا قہلا قہلا ہا اُنجے اُڈ گیا قہلا قہلا ہِے کیوں صبر نہ ہووِن بے صبرے گیا پِھس چیچی دا چھالا ہِے جٙھٹ جٙھٹ چھت دیاں ہنجواں نوں خود پِس لتھا پرنالا ہِے ساون نوں گوتے آ گئے ہن برسات جو اکھیوں اُٹّھی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ ویکھ نہ رونقاں لگیاں ہِن ہن بیلی بیل نبھانڑ آئے ہک بئے نوں ہِن پرچانڑ آئے تیرے نال ہِن شام منانڑ آئے غٙش پون سکندر ، انصر نوں نالے عمر ، فاروق ، کنڈانڑ آئے الطاف ، ریاض ، لطیف ، عاقب ، ہِن جھنگ چوں دینڑ مُکانڑ آئے تیرے بیلیاں دی مجبور حسرت کیہں کُھڈیاں نال چہ کُٹّھی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں بولی جیہں تے ناز کرے ہنڑ ایہہ جئے قافئیے کیں بنھڑِن ہنج لُڑدی ویکھ کے دکھیاں دی تسکین دے نغمے کیں پڑھنن متاں ہجر اچ زندگیاں ہٙڈ جاون انج سوز دے مِصرعے کیں لِکھڑِن ہنڑ ہجر اچ انھہیاں کیں ہونڑاں یعقوب تو چولے کیں منگڑِ ن کیں ظلم دے کاں تو غربت دے ڈٙڈ کٙھسڑیں مار کے جُھٹی اے ہک درد کلاس اچ تو کوئی نہوں لگدائے اسکول نو چھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نضماں دے ہتھ اچ سنگلی ہے قتعیاں دے ویہڑے ماتم ہے غزلاں دیاں سیڑھاں رُکدیاں نہیں گیتاں دی جھولی چھم چھم ہے ماہیئے دے وینڑ ڈکیندے نہیں دوہڑے دا ریاض الم خم ہے گلوکاراں دے سُر سازاں چوں ہے لگدا ٹُر گیا سر گم ہے کِھڈکاری کھیڈاں بھن گئے ہِن ہُنڑ لُولیاں دے ہتھ گُٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہراں استعفے دے چھوڑے ہے قافیہ کر ہڑتال گیا بے گُریاں چاٹاں جھل جھل کے عوضان دا منہ ہو لال گیا ہتھ کھاڈی ہیٹھ تخیّل دا لئے درد روانی نال گیا گو ٹُر گیا ہے ماں بولی دی پر قبر تے ڈیوا بال گیا ٹُٹ جانڑ دا کوئی ارمان نہی ارمان ہُلاریو ترٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چُھٹی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِتھوں خالی ٹُھوٹھے بھر بھر کے سئیں منگتے صاحب ذر بنڑ گئے ایڈی برکت آلی خیر آہی گمنام کئی ناں ور بنڑ گئے جِتھے نچدی ریاض جہالت ہاہ اُتھے علم دے ہن دفتر بنڑ گئے اُو خود گھر توں بے گھر ہو گئے جہندے گھر توں کئی گھر گھر بنڑ گئے آئی جہندے مُنہ منہ پٙھٹ بنڑیاں ایڈی طاقت آلی گُھٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔ ہووی پیریں تِلّے گچ کُھسّہ یا ہو کٙھبکاونڑیں جُتّی اے گل مُکدی ریاض پرانڑاں تے سج دھج نہی کڈھدی بُتّی اے کدی ترلیاں نال نہ کٙنڑ ودھدا جے گڈہیئے فصل کرُتّی اے گھر سادھاں دے آباد سدا بھاویں چوراں لوٹی لُٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیڈی جوڑی ہاہ دو درداں دی تقدیر چا پُھوڑے سنگ پُھٹ گئے ایہا پُھوٹے پُھوڑے بنڑ بنڑ کے سنگ رنگ کے انگ دا گل گُھٹ گئے ہنڑ بھوگ ہکلیاں روگ سبّھے کر سوگ سنجوگ دے ہتھ چُھٹ گئے رُو وے بٙھیرمی جوگ نصیباں نوں درداں دے بول دے کٙھب ترٹ گئے ہر انگ تے وینڑ کریندے ہن سازاں تو راگنی رُٹّھی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں واپس تے نہی لا سگدے قانون ہے وائے تو باہلا اے اُنج سجن کسے نہی گٙھٹ کیتی پرچایا آنڑ نرالا اے تیرے احتشام دے چو گردوں انج سجناں تنڑیا جالا اے جویں دھرتی گِرد ہمالہ اے یا چن دے باہروں ہالا اے ہر اکھ نپیڑیاں لگدا ہاہ کہیں بکّڑ وال دی اُٹّھی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر تے دعائیہ شعر اے کہ جہڑے رستے دا اج راہی ہیں شالا اُو منزل آسان ہووی کملی دا سایہ سر تے رہی خود راضی رب رحمان ہووی جویں دنیا تے پہچان ہائی اگے اس تو ودھ پہچان ہووی جویں درد غلام محمد ہیں اِسے ناں دے نال سنجانڑ ہووی جنت دیاں کھڑکیاں کُھل وینی ہووی ہتھ مدنی دے گُٹّی اے ہک درد کلاس اچ توں کوئی نہوں لگدائے اسکول نوں چُھٹّی اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11:34 AM

جنگ محبت دی ہار بیٹھے آں ,,

جنگ محبت دی ہار بیٹھے آں ,, موت کیتے تیار بیٹھے آں ,, اوہ وی غیراں دا بَنڑ گیاۓ یارو اپنڑاں دل جہتھوں وار بیٹھے آں ,, غلطی ہوئ اے جوں اپنڑی چادر توں پیر باہلے کھلار بیٹھے آں ,, کاسہ ڈٹھیاں اوقات یاد آ گئی روندے تاہیں زارو زار بیٹھے آں ,, عید آئ اے بغیر سجنڑاں دے وڈے دِنہہ سوگوار بیٹھے آں ,, جس حیاتی نوں سیج سِکدی رہی کہیں دے قدماں ءچ گزار بیٹھے آں ,, جد وی لاۓ لئے ہے مرضی مالک دی چائ سانہہ دا اُدھار بیٹھے آں ,, ”درؔد؎“ بےلوث دوستی کر کے ہوۓ اُلٹا خُوار بیٹھے آں ,,